حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جموں و کشمیر انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے مکتب الزہرا حسن آباد سرینگر میں وادی کے کئی تاریخ دان اور تاریخ شناس شخصیات کا ایک خصوصی اجلاس، حجت الاسلام والمسلمین آغا سید حسن الموسوی الصفوی کی صدارت میں منعقد ہوا۔
اجلاس میں متنازعہ بالی ووڈ فلم کشمیر فائلز میں موجود زہر آلود مواد پر شدید تشویش ظاہر کی گئی فلم میں مسلمانان کشمیر اور شیعہ مبلغ حضرت میر شمس الدین اراکیؒ اور انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینیؒ کے خلاف اشتعال انگیزی اور توہین آمیزی کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔
اجلاس میں کہا گیا کہ فلم میں موجود مواد زمینی اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی ایک دانستہ کوشش ہے فلم میں وادی کشمیر کے سوا لاکھ مسلمانوں کی ہلاکتوں اور ہزاروں گھروں کی مسماری سے مکمل طور پر صرف نظر کیا گیا ہے 90 کے قریب کشمیری پنڈتوں کی ہلاکتوں کو نسل کشی سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ 90 کی دہائی میں کشمیر کے اطراف و اکناف میں درجنوں ایسے سانحات رونما ہوئے جن میں بیک وقت 50سے 80 تک لوگ فورسز کی گولیوں کے نشانہ بنے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ بھارت کے اکثریتی فرقے کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے زمینی حقائق کو مسخ کیا گیا اور غلط تاریخی حوالے دئے گئے ہیں فلم کے آغاز میں عالم اسلام کے بلند پایہ قائد حضرت امام خمینیؒ کی تصویر کو انتہا پسندی کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ امام خمینیؒ اور انکے پیروکار انتہا پسند اور دہشت گرد ہیں۔
اجلاس میں کہا گیا کہ امام خمینیؒ نے ایران میں جو عظیم انقلاب برپا کیا اس میں عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کا کوئی عنصر شامل نہیں تھا بلکہ یہ انقلاب صرف فکری بنیادوں پر رونما ہوا اس انقلاب نے دنیائے اسلام میں مغربی سامراجی قوتوں کے اثر و رسوخ اور حقیر مفادات کی راہ مسدود کر دیا اس لئے امریکہ اور اسرائیل انقلاب اسلامی کے خلاف ابتدا سے ہی سازشیں کرتے رہے اور دنیا میں اپنے حریف ممالک کو بھی اسلامی انقلاب اور امام خمینیؒ کے افکار و نظریات کے خلاف مہم جوئی کی ترغیب دیتے رہے۔
مذکورہ فلم امریکہ اور اسرائیل کا آشرواد حاصل کرنے کی ایک کڑی ہے شیعہ مسلک کے معروف مبلغ حضرت میر شمس الدین اراکیؒ کی صوفیانہ درویشانہ شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اجلاس میں کہا گیا کہ موصوف کے کردار و عمل کے حوالے سے فلم میں موجود تذکرہ تاریخی حقائق کے منافی ہے اور اس پروپگنڈے کے لئے معتبر تاریخی کتابوں کے بجائے متعصب تاریخ دانوں کی کتابوں کو ماخذ بنایا گیا ہے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ کشمیر میں حضرت میر شمس الدین اراکیؒ کے خانوادہ کے علمائے دین اور پیروکاروں کی انسانیت نوازی فرقہ وارانہ رواداری کے جذبات بالخصوص کشمیری پنڈتوں کے ساتھ مخلص بھائی چارہ ایک کھلی کتاب کے مانند ہے 1973میں جب حکومت نے زرعی اصلاحات قانون کے تحت کاشتکاروں کو پنڈتوں کی زمینوں کے مالکانہ حقوق دئے تو میر اراکیؒ کے پیرو کاروں نے پنڈتوں کی زمینیں حاصل کرنے سے انکار کیا اور اس قانون کو غیر شرعی قرار دیاجس طبقہ فکر کے لوگوں نے قانونی طور پر پنڈتوں کی بیش قیمت زمینیں لینے سے انکار کیا وہ لوگ کس طرح پنڈتوں کی جائداد لوٹ سکتے تھے یا ان کا قتل و غارت کرسکتے تھے۔
اجلاس میں کہا گیا کہ مذکورہ فلم کا سب سے بڑا مقصد بھارت میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا اور بھارتی ہندوں کی اکثریت کے دلوں میں کشمیری مسلمانوں کی دشمنی اور نفرت پیدا کرنا ہے مذکورہ فلم عالمی سطح پر جاری اسلامو فوبیا کی ایک کڑی اور استکباری قوتوں کے اسلام مخالف ایجنڈے کے ساتھ ہم آہنگی کا مظاہرہ بھی ہے۔ اجلاس میں یہ عزم ظاہر کیا گیا کہ مذکورہ فلم جیسے زہر آلود پروپوگنڈے کے سد باب کے لئے علمی اور فکری سطح پر کوششیں جاری رکھی جائیں گی ۔